بچے کی تربیت کی بنیادی درس گاہ تو ماں ہی ہے۔ اس کی تربیت تو ماں کے پیٹ سے شروع ہوجاتی ہے،وہ سب سنتا ہے اور اس بات کی تصدیق سائنس بھی کرتی ہے۔پر اگر ہم اس کے بعد دیکھیں تو بچے کی تربیت کوئی ایک نہیں کرتا بلکہ اس میں بہت سارے لوگوں کا کردار ہوتا ہے جیسے اس کے استاد ان کا رویہ، اس بچے کے دوست اور آس پاس کے لوگ کیونکہ انسانی نفسیات ہے کہ وہ سب سے زیادہ جلدی observational learning کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بچہ اپنی کلاس میں کسی کو اسکول میں دیر آتے دیکھ سزا ملتے دیکھتا ہے تو اسے فورا سبق لیتا ہے کہ اگر میں دیر سے آیا تو میرے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ پھر بچے کی تربیت میں اہم کردار اس کے گھروالوں کا بھی ہوتا ہے، بچہ ایک ایک چیز نوٹ کرتا ہے یہاں تک کہ اگر غور کیا جائے تو وہ بات بھی وہسے ہی کریگا جیسے آپ اسے بات کریں گے، اس لئے بچے کو کنوے کی آواز بھی کہا جاتا ہے، کوئی اسے آپ جناب کرکے بات کریگا تو بچہ بھی آپ کرکت بات کریگا۔ گھروالوں میں بھی اگر بچہ کسی ایک کے پاس زیادہ وقت گزارتا ہے ایاں وہ دادی ہوں یا دادا، نانی ہوں یا نانا تو ایسی صورت میں تربیت کی ذمیداری وہ لوگ سنبھال رہے ہیں۔ ایک psychologist تھا، sigmund Freud جس کا کہنا تھا کہ بچے کی شخصیت کے 5 سٹیجس ہوتے ہیں، ان میں اگر ماں باپ نے کسی چیز کی زیادتی یا کمی کی تو اسے بھی بچے کی شخصیت اثر انداز ہوتی ہے۔ پھر ایک ماہرِ نفسیات کہتا تھا کہ مجھے ایک بچہ دو میں اسے پانچ سال کی عمر تک تیار کردونگا کہ وہ بڑا ہوکر کیا بنے گا کیونکہ اس کے لحاظ سے بچے کی تربیت پانچ سال میں مکمل ہوجاتی ہے۔ اور اس میں ماں باپ نہیں تو کوئی بھی وہ شخص شامل ہوتا ہے جس کے پاس بچے کا وقت زیادہ گزرتا ہو۔