دراصل مذہب میں سارا زور اس پہ دیا جاتا ہے کہ رخ کی جو سمت ہے‘ یہ جو جزئیات ہیں‘ یہ جنہیں ہم اپنے اپنے ارکان کہتے ہیں‘ وہ صحیح انداز کے مطابق طے ہو رہے ہیں یا نہیں؟ مثلاً یہ کہ ہاتھ کہاں بندھا ہے؟ کہاں تک اٹھ رہا ہے؟ پاؤں کے درمیان کا فاصلہ کتنا ہے؟ رکوع میں زاویہ کیا بنتا ہے؟ سجدے میں وہ پانچوں چیزیں زمین پہ ٹکتی ہیں یا نہیں؟ پھر اس سے ذرا اور آگے بڑھ جائیے۔ الفاظ صحیح مخرج سے نکل رہے ہیں یا نہیں؟ یہ ساری چیزیں ہیں مگر یہ ہے کہ لفظ کے معنی نہیں سمجھے جاتے‘ لیکن مخرج سے صحیح نکلنے چاہئیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ زبان کے لیے تلفظ کا صحیح ہونا ضروری ہے لیکن یہ ساری چیزیں تو اس لیے تھیں کہ الفاظ کے کچھ معنی ہوتے ہیں‘ الفاظ تو معنی کے پیکر ہوتے ہیں۔ اگر اس کے اندر یہی چیز نہیں ہے تو یوں سمجھو کہ صدف ہے اور بغیر گوہر کے ہے ’’ بادام اے بغیر گری دے ٭(2) ‘‘۔ اس چھلکے کا ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کے اندر وہ گری Preserve (محفوظ) رہتی ہے۔ اگر وہ چھلکا نہایت محکم مستحکم رہے مگر اس کے اندر گری نہیں ہے تو اس چھلکے کا کیا فائدہ۔ یہ چھلکا مقصود بالذات نہیں ہے‘ مقصود اس نظام کا قیام ہے عزیزانِ من! جونہی یہ حلال و حرام کی چیز سامنے آئی یہ کہتے ہیں صاحب! کہ قرآن کی ترتیب نہیں ہے مگر میں اقبالؒ (1877-1938ء)کی ہمنوائی میں کہتا ہوں کہ
محرم نہیں ہے تُو ہی نوا ہائے راز کا
اس میں ترتیب تو ایسی سمجھ میں آتی ہے کہ میں اس ترتیب سے وجد میں آجاتا ہوں۔
قرآن حکیم کا یہ خاصہ ہے کہ اس میں شروع سے آخر تک موتیوں کی لڑی کی طرح باہمی ربط ہے
یہ کتاب اس خدا نے لکھی ہے‘ منتشر اشعار نہیں لکھے ہیں‘ غزل نہیں ہے کہ جس کا ایک شعر تو وصال کی لذتیں دیتا ہے‘ دوسرا فراق کے نوحے گا رہا ہے۔ اس کے اندر یہاں سے وہاں تک ایک تسلسل ہے۔ اور یہاں دیکھیے کہ نگاہ ادھر جاتی تھی کہ یہ وہی چیزیں ہیں جو مذاہب میں پائی جاتی ہیں کہ یہ نہ کھاؤ‘ یہ کھاؤ‘ یہ اس طرح سے کھاؤ۔ یہ کچھ یہاں تک ہم پہنچے‘ پہنچنے کے فوری بعد اگلی چیز آتی ہے کہ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ (2:177) کہیں اس فریب میں مبتلا نہ ہو جانا کہ مقصود بالذات یہ جزئیات ہیں‘ یہ رسوم ہیں‘ یہ ارکان ہے۔ مقصود بالذات وہ اصل مدعا‘ مقصد‘ منزل‘ نتیجہ ہے‘ جس تک پہنچانے کا یہ ذریعہ ہے‘ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنا نہیں۔ سفر کرنے والے کے لیے ٹکٹ نہایت ضروری ہے۔ ٹکٹ خرید کر گھر میں بیٹھ جائیے‘ اسے جیب میں ڈال لیجیے ‘مکے نہیں پہنچ سکتے۔ یہ ذرائع (Means)اور مقصود (Ends)میں فرق کرکے دکھا دینا‘ یہ ہے قرآن کا اعجاز۔ کہا ہے کہ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ (2:177) کشاد کی راہ یہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنا نہیں ہے۔ پھر بر کا لفظ آیا ہے جیسا میں نے کہا ہے آپ دیکھیے‘ ہمارے ہاں تو ایک ہی لفظ ہے جسے ہم نیکی کہتے ہیں۔ اور پھر وہ نیکی کا مفہوم آپ کو معلوم ہے۔ پہلی نیکی تو وہ ہے جو ماں بچے کو جس سے ڈرایا کرتی ہے ’’ آئی نیکی‘ او آیا بھاگ‘‘۔ ذرا اونچے اٹھتے ہیں تو ’’ اینوں اینی اللہ دی نیکی ہے کوئی۔ آنیکی ویکھدے اوکتھے کتھے تری جاندی اے ٭(3) ‘‘۔ اور آگے بڑھ جائیے تو صحیح معنی میں وہ آتا ہے جسے آپ کہتے ہیں کہ بڑا نیک آدمی ہے۔ اور آپ کو یہ معلوم ہے کہ پھر اس سے تصور کیسا سامنے آتا ہے۔