این آر او (NRO) یا قومی مفاہمتی فرمان 2007 میں اس وقت پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے جاری کیا تھا جس کے تحت یکم جنوری 1986 سے 12 اکتوبر 1999 کے درمیان سیاسی بنیادوں پر درج ہونے والے مقدمات ختم کردیے گئے تھے جس سے پاکستان میں موجود بہت سے سیاسی افراد نے فائدہ اٹھایا۔ تاہم اس کے دو برس بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس آرڈیننس کو مفادِ عامہ اور آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا، جس کی وجہ سے مقدمات دوبارہ کھل گئے تھے۔
اب سوال بنتا ہے کہ کیا این آر او دوبارہ جاری ہو سکتا ہے؟
تو اس کا جواب ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ عدالت سے کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد این آر او کا قصہ تو نو سال پہلے ختم ہو چکا ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں این آر او ایک سیاسی اصطلاح کے طور پر ہی استعمال ہو سکتا ہے۔عدالت میں چونکہ اس طرح کے آرڈیننس کو امتیازی قرار دیا جا چکا ہے جو ایک نظیر کی صورت میں پاکستان کی قانون کی کتابوں میں موجود ہے تو اس طرح کے قانون یا آرڈیننس کو دوبارہ جاری کرنا بھی بےمعنی ہو گا کیونکہ عدالت گزشتہ فیصلے کی روشنی میں این آر او یا اس طرح کے کسی بھی قانون کو فوراً مسترد کردے گی۔ لہٰذا جب عمران خان یا کوئی اور سیاسی رہنما این آر او کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات یا تحقیقات کو ختم کرنا۔ اس کے لیے صدارتی آرڈیننس یا این آر او ہی واحد طریقہ نہیں ہے۔حکومت اگر چاہے تو من پسند افراد کو مقدمات سے نکلنے میں مختلف طریقوں سے مدد دے سکتی ہے۔ مثلاً ریاست ان سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات کی پیروی نہ کرے، ان کی ضمانتوں کی درخواستوں کی مخالفت نہ کرے وغیرہ وغیرہ۔