السلام علیکم،
مذہب انسان کا فطری جذبہ ہے،اس کا اعتراف غیرمسلم مفکرین نے بھی کیا ہے۔ یہ بات انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ کسی بلند ہستی سے رجوع کرے، جو زندگی کے دکھ سکھ میں اس کے لئے سہارا ہو اور تمام دنیا سے بڑھ کر اس کا ہمدرد وغمگسار ہو۔
انسان شروع ہی سے ایک نادیدہ ہستی کو اپنا خلق تسلیم کرکے اس سے مدد کا طلب گار رہا ہے۔ انسان نے اسی نادیدہ ہستی کو کبھی خدا،کبھی اللہ ،کبھی یزادن اور کبھی بھگوان کا نام دیا ہے۔ فطرت ہر انسان سے مذہب کا تقاضا کرتی ہے اور انسان مذہب کے بغیر کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا۔
خصوصاً غم وآلام میں تواسے مذہب کی اور بھی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ایک انسان جب مشکل حالات سے دوچار ہو کر مایوس ہو کر مذہب کی طرف رجوع کرتا ہے، خدا کے حضور حاضر ہوتا ہے، مسجد میں جاکر سجدہ ریز ہوتا ہے یا مندر میں جا کر بھگوان کی مورتی کے سامنے گڑگڑاتا ہے تو اس کی روح پرسکون ہوجاتی ہے، اوراس کی پریشانیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ ہردور میں جاہل سے لیکر عالم تک گدا سے لیکر بادشاہ تک،متقی سے لیکر گناہ گار تک سبھی کسی نہ کیسی صورت میں مذہب کے مرہون منت رہے ہیں۔
اگر مذاہب عالم کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مذہب یا دین کی اساس توحید باری تعالیٰ ہے ۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے توحید اور خدا شناسی کی تعلیم دی۔ خدا کو ایک ماننے سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی میں اضافہ نہیں ہوتا ۔ اگر تمام دنیا کے لوگ خدا کو تسلیم کرنا چھوڑدیں تب بھی خدا کی عظمت اور بزرگی میں فرق نہیں آتا۔ اس عقیدہ میں انسان کے لئے ہی فوائد مضمر ہیں۔جن سے انسانیت کی بقا مضبوط ہوتی ہے۔
بشکریہ ہماری ویب