اردو جواب پر خوش آمدید

0 ووٹس
240 مناظر
نے اردوجواب میں
مادیت کے متعلق مختلف تصورات پائے جاتے ہیں مجھے ان کی وضاحت درپیش ہے تاکہ اس مسئلہ کا حل پا کے ذہن کی تسکین کر سکوں

1 جوابات

0 ووٹس
نے

 

[big]قرآنِ حکیم کے متعلق ہمارے ہاں کئی تاریخی افسانے بنیادی طور پر ہی غلط ہیں
 
ہمارے ہاں وہ تمام افسانے موجود ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ نبی اکرمؐ کے زمانے میں قرآن کتابی شکل میں‘ اس ہیئت میں تھا ہی نہیں جس میں آج وہ ہمارے پاس ہے۔ یہ غلط ہے۔ قرآن کی داخلی شہادت اس پر شاہد ہے کہ یہ اسی صورت میں کتاب کی شکل میں تھا جس میں آج یہ ہمارے ہاں موجود ہے۔ اس کی ترتیب یہی تھی‘ اس کا انداز یہی تھا‘ یہ کتاب کی شکل میں تھا‘ شیرازہ بند تھا اور چونکہ خدا نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا تھا اس لیے یہ اُسی شکل میں آج تک ہمارے پاس چلا آرہا ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں ہوئی‘ حک واضافہ نہیں ہوا‘ ردّ وبدل نہیں ہوا‘ نہ ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے قرآن کے ماننے والوں کے لیے تو دلیل یہ ہے کہ خود خدا نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے اسے نازل کیا‘ ہم ہی اس کی حفاظت کے ذمے دار ہیں۔ اور اگر ہم غیر مسلموں کے ہاں جائیں گے تو ہم تاریخی شہادات سے اِس چیز کو ثابت کردیں گے کہ قرآن اُسی شکل میں ہمارے پاس چلا آتا ہے جس شکل میں اسے خدا سے پا کر نبی اکرمؐ نے امت کو دیا تھا۔ کہا ہے کہ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ (2:2) یہ ہے وہ الْکِتٰبُ۔ اس ‘‘الکتات’’ کی پہلی خصوصیت یہ بتائی کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ (2:2)۔ عربی زبان میں شک بھی لفظ موجود ہے‘ ریب بھی موجود ہے۔ قرآنِ کریم نے خود شک کا لفظ بھی استعمال کیا ہے‘ ریب کا لفظ بھی استعمال کیا ہے بلکہ شک کے Adjective یعنی‘ صفت کے طور پر‘ اُس نے شک مریب (34:54) بھی کہا ہے۔ گویا ریب‘ شک سے کچھ مختلف چیز ہے اگرچہ اس کے اندر شک کے معنی آجاتے ہیں لیکن ریب اس سے کچھ بڑھی ہوئی چیز ہے اور یہ بہت عظیم خصوصیت ہے۔
 
قرآنِ حکیم میں لاریب کا لفظ جن معنی میں استعمال ہوا ہے‘ اس کی وضاحت
 
قرآن نے شروع میں ہی اپنے متعلق کہہ دیا ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ (2:2)۔ اس میں ایک معنی تو یہ ہوں گے کہ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں جسے آپ Doubtful یا مشکوک کہہ سکیں۔ یہ حقائق ہیں‘ یہ Realities ہیں‘ یہ صداقت ہے‘ یہ یقینی شے ہے‘ اس میں کوئی شے ایسی نہیں ہے جسے مشکوک کہا جاسکے۔ اور دوسری چیز یہ ہے کہ شک نہیں کہا بلکہ ریب کا لفظ آیا ہے۔ ریب کے معنی نفسیاتی الجھن کے‘ اضطراب کے‘ بے چینی کے ہوتے ہیں اور یہ بڑی چیز ہے جو قرآن کہہ گیا ہے۔ شک سے انسان میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اندھیرے میں اندر جاکر جب ہم کچھ محسوس کریں‘ خواہ وہاں رسی پڑی ہوئی ہو اور کہہ دیا جائے کہ یہاں سانپ تھا ‘آپ دیکھتے ہیں کہ اس سے ایک عجیب قسم کی الجھن پیدا ہوتی ہے۔ جب تک وہ شک کی کیفیت رہتی ہے‘ وہ اضطراب اور الجھاؤ اور بے چینی باقی رہتی ہے لیکن جب روشنی آجائے اور یہ معلوم ہوجائے کہ وہ کیا ہے یعنی یہ ضروری نہیں کہ وہ رسی ہو‘ وہ اگر سانپ بھی ہوا توپہلی کیفیت جو آپ کے ہاں تذبذب کی ہوتی ہے وہ چلی جاتی ہے۔ اب دوسری چیز آپ کے سامنے آگئی۔ سانپ بھی کیوں نہ ہو‘ ہوسکتا ہے کہ اُس سے آپ کو ڈر لگے‘ ہوسکتا ہے کہ اُس کے بعد سوچیں اُس سے بچنے کی آپ کوئی تدبیرکریں لیکن آپ کے ہاں کی نفسیاتی الجھن باقی نہیں رہتی۔[/big]

متعلقہ سوالات

0 ووٹس
3 جوابات 674 مناظر
گمنام نے پوچھا اردوجواب میں 27 مارچ, 2013
0 ووٹس
1 جواب 1.5ہزار مناظر
+1 ووٹ
2 جوابات 2.2ہزار مناظر
0 ووٹس
1 جواب 604 مناظر

السلام علیکم!

ارود جواب پرخوش آمدید۔

کیا آپ کے ذہن میں کوئی ایسا سوال ہے جس کا جواب جاننا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں! تو آپ بالکل درست جگہ آئے ہیں۔ کیونکہ اردو جواب پر فراہم کیے جاتے ہیں آپ کے سوالات کے جوابات، وہ بھی انتہائی آسان لفظوں میں۔ سوال خواہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو مگر ہمارے ماہرین کیلئے کچھ بھی مشکل نہیں۔ تو ابھی اپنا سوال پوچھیے اور جواب حاصل کیجئے۔

اگر آپ بھی اردو جواب پر موجود کسی سوال کا جواب جانتے ہیں تو جواب دے کر لوگوں میں علم بانٹیں، کیونکہ علم بانٹے سے ہی بڑھتا ہے۔ تو آج اور ابھی ہماری ٹیم میں شامل ہوں۔

اگر سائٹ کے استعمال میں کہیں بھی دشواری کا سامنا ہو تودرپیش مسائل سے ہمیں ضرور آگاہ کیجیئے تاکہ ان کو حل کیا جا سکے۔

شکریہ



Pak Urdu Installer

ہمارے نئے اراکین

731 سوالات

790 جوابات

411 تبصرے

363 صارفین

...