سب سے پہلے مرغابیوں کی بات کرتے ہیں۔
آپ نے سنا ہو گا کہ موسم سرما میں جب مغربی ممالک میں بہت زیادہ سردی پڑتی ہے تو مرغابیاں گرم ممالک کر رخ کرتی ہیں۔ایسے ہی موسم سرما میں میرے شہر کی قدرتی جھیل کا رخ کرنی والی مرغابیاں بڑی تعداد میں جھیل میں آ پہنچتی ہیں۔جنگلی حیات کے طرف سے شکار پر پابندی ہے لیکن پھر بھی لوگ چوری پچھے پولیس کو رشوت دے کر شکار کرنے کی خواہش کو تسکین پہنچا ہی لیتے ہیں اور مرغابی کے لذیذ گوشت کا لطف بھی اٹھا لیتے ہیں۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں شکار پر پابندی ہونی چاہیے کیوں کہ جنگلی حیات اور یہ آبی حیات تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہیں ،تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مچھلیوں کی کچھ اقسام بھی نا پید ہوتی جا رہی ہیں۔
خیر شکار کے موضوع پر آتے ہیں،مرغابیوں کے شکار کے لیے بڑی دلچسپ تکنیک جو استعمال کی جاتی ہے وہ جھیل کے اندر کشتی لے جا کر نقلی مرغابیوں کو پانی میں چھوڑ کر اصلی مرغابیوں کو بہلا پھسلا کر شکار کرنا ہے۔میں نے جو اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ یہ کہ پہلی نقلی بطخ اور مرغابیوں کو پانی میں چھوڑا گیا ،پانی کی لہروں نے انہیں تیرا کر ادھر ادھر بکھیر دیا۔کشتی میں موجود دو آدمی سانس روکے اس تاڑ میں تھے کہ اصل مرغابیاں دھوکے میں آجائیں اور کچھ لمحوں بعد یہی ہواصل مرغابیاں آہستہ آہستہ نقلی مرغابیوں کے ساتھ کشتی کے قریب پہنچ گئی جب رینج میں آئیں تو فائر کر دیا گیا اور ایک فائر میں 5 سے زیادہ ڈھیر ہو گئیں جنہیں فوری طور پر زبح کیا گیا ۔
شکار کی یہ تکنیک تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔
باقی مچھلی کا شکار تو خود کیا ہے۔ایک طریقہ تو کانٹے سے مچھلی پکڑنا ہے دوسرا جال سے ۔
یہاں جنگلی خرگوش کو شکار کرنے کے لیے رات کا وقت منتخب کیا جاتا ہے۔بیم لائٹ والی ٹارچ کا استعمال کیا جاتا ہے خرگوش کی آنکھوں میں ٹارچ لگاؤ تو وہ وہیں رک جاتا ہے اسے کچھ نظر نہیں آتا اور پھر چھوٹی بندوق سے فائر کھول دیا جاتا ہے۔
یہ تو حلال جانوروں کے شکار کی بات تھی ،حرام میں سر فہرست "حنزیر" ہے اس کے شکار کے لیے اس کے پیچھے پہلے کتے لگائے جاتے ہیں ۔کتے اس سے لڑائی کے دوران کئی تو زخمی اور مر جاتے ہیں جب کہ باقی بچنے والے بالآخر اسے نڈھال کر کے زمین بوس کر ہی لیتے ہیں۔
اس کا شکار کیوں کیا جاتا۔یہاں کے لوگ خنزیر کو اس لیے مارتے ہیں کہ فصلوں اس کے نقصان سے بچا سکیں۔