(9) PART
یہ باتیں تمہیں نئی نئی سی اس لیے دکھائی دیتی ہیں کہ تم ایک دوسری دنیا سے آئے ہو ورنہ یہ تو ایسی کھلی ہوئی حقیقت پر مبنی ہیں کہ ان کے سمجھنے میں ذرا بھی دقّت نہیں ہو سکتی۔ تم حیران ہو کہ ہم زمین میں ہل چلاتے ہیں۔ سال بھر محنت کرتے ہیں اور اس کے بعد ساری فصل کو خدا کے بندوں کےلیے کھُلا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے لیے صرف اپنی ضروریات کے مطابق رکھتے ہیں۔ تم ہماری محنت کو تو دیکھتے ہو لیکن یہ بھی سوچو کہ
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب
کون لایا کھینچ کر پچھّم سے بادِ ساز گار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نورِ آفتاب
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب
جس نے یہ سب کچھ کیاہے، ملکیت کا حق اس کا ہے یا تمہارا اور میرا؟ بس اتنا سا تل ہے جس کی اوٹ زندگی کا سارا پہاڑ کھڑا ہے۔ جو یہ سب کچھ کرتا ہےاس کا نام رازق ہے اور اتنی سی بات کے سمجھ لینے سے سارے مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔
اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم
ہماری دنیا میں حرام و حلال کا یہی معیار ہے۔ جو رزق اس معاشرے سے ملے جس میں انسان صرف امین ہوں وہ رزق حلال، اور جس میں رزق، انسانوں کی ملکیت قرار پا جائے اور اس طرح اس کی نسبت غیر اللہ کی طرف ہوجائے وہ رزق حرام۔ تم یہاں جس قدر قوّت و توانائی اور طاقتِ پرواز و برومندی دیکھ رہے ہو سب رزقِ حلال کی بدولت ہے۔
علم و حکمت ز اید از نانِ حلال عشق و رقّت آید از نانِ حلال
اور اس نکتے کو یاد رکھو کہ
زندگی جُز لذّتِ پرواز نیست آشیاں با فطرتِ او ساز نیست
جب زندگی نام ہی لذّتِ پرواز کا ہے تو اس بات کے سمجھنے میں کیا دشواری پیش آسکتی ہے کہ
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ہمارے معاشرے میں چونکہ ہر ایک کو رزقِ حلال ملتا ہے اس لیے کسی کی پرواز میں کوتاہی نہیں آسکتی اور اس کا راز یہ ہے کہ یہاں ہر فرد، دوسرے کی سود و بہبود کی فکر میں مصروفِ کار رہتا ہے۔ ‘‘سودِ خویش’’ کی جگہ ‘‘سودِ ہمہ’’ یہاں کے نظام کا عروۃ الوثقیٰ ہے کیونکہ یہاں ہر فرد خدا کی صفتِ ربّ العالمینی کا مظہر ہے۔ ہماری ساری تعلیم کا ما حصل یہ ہے کہ
کس نباشد در جہاں محتاجِ کس نکتۂ شرعِ مبیں این است و بس
اس نووارد نے پوچھا کہ تم اپنے معاملات کس طرح طے کرتے ہو، یعنی یہاں حکومت کا انداز کیا ہے؟ حکومت کا لفظ سُن کر اس مخاطب کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے کہا کہ ہمارے ہاں حکومت کا تصوّر ہی نہیں۔ یہاں کوئی انسان کسی دوسرے انسان پر حکم نہیں چلا سکتا۔ ہمارا ایمان یہ ہے کہ
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اِک وہی باقی بتانِ آذری
ہمیں خدا کی طرف سے ایک کتاب ملی ہے جس میں نظامِ زندگی کے لیے محکم اور غیر متبدّل اصول درج ہیں۔ اس کا نام قرآن ہے ……….. اس لفظ کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر تمتماہٹ آگئی۔ ایک ثانیہ کے لیے گہری سوچ میں ڈوب کر اس نے سر اوپر کو اٹھایا اور کہا کہ تم نہیں جانتے قرآن کیا ہے!
چیست قرآں؟ خواجہ را پیغامِ مرگ دستگیرِ بندۂ بے ساز و برگ
نقشِ قرآں تا دریں عالم نشست نقشہائے کاہن و پاپا شکست
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
چوں بجاں در رفت جاں دیگرشود جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود
اس ضابطۂ ز
(10) PART
خاک کے ذرّے اپنی ارتقائی منازل طے کرتے کرتے پیکرِ آدم تک پہنچے اور آدم اپنی ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد مقامِ مومن تک پہنچتا ہے۔ اور
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے مومن کا مقام ہر کہیں ہے
مومن، فطرت کا شاہکار اور دائرۂ کائنات کا نقطۂ پر کار ہے۔ کائنات میں مومن کے مقام سے بلند اور کوئی مقام نہیں۔
مومنے بالائے ہر بالا ترے غیرتِ اُو بر نتابد ہمسرے
پستیوں اور بلندیوں میں جو کچھ ہے سب اس کے لیے مسخّر کردیا گیا ہے، کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی۔
عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے
یہ مومن یہ ہے جس کے متعلّق کہا گیا ہے کہ
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
لیکن اس کا ذوقِ سفر، ناقۂ بے زمام کی آوارگی نہیں کہ جدھر مُنہ اٹھا یا چل دئیے۔ اس کے سامنے زندگی کا متعیّن نصب ا لعین ہے اور اس کا ہر قدم اس نصب ا لعین کی طرف اٹھتا ہے۔ یہ نصب ا لعین اس کا اپنا متعیّن کردہ نہیں بلکہ اس ضابطۂ حیات کی رُو سے متعیّن شدہ ہے جو اس کی زندگی کی اساس ہے۔ وہ فضا کی پہنائیوں میں پورے زورِ بازو سے اڑتا ہے لیکن اپنی منزلِ مقصود کو کبھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔
پرد در وسعتِ گردوں یگانہ نگاہِ اُو بشاخِ آشیانہ
مہ و انجم گرفتارِ کمندش بدستِ اوست تقدیرِ زمانہ
قُرآن کے محکم اصولوں کے ساتھ اس درجہ وابستگی اور اس کے بعد اپنے زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دینے میں اس درجہ آزادی۔ یہ ہے وہ عناصر جن سے اس کی سیرت مرتّب ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ
نہ اس میں عصرِ رواں کی حیا سے بیزاری نہ اس میں عہدِ کہن کے فسانہ و افسوں
حقائقِ ابدی پر اساس ہے اس کی یہ زندگی ہے نہیں ہے طلسمِ افلاطوں
عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوقِ جمال عجم کا حسنِ طبیعت عرب کا سوزِ دروں
آدمِ نو نے کہا کہ میں نے یہ سب کچھ سمجھ لیا۔ میں لفظاً لفظاً تم سے متفق ہوں کہ زندگی اسی کا نام ہے، باقی سب وہم و تخیّلات ہیں۔ میں اپنا ہاتھ بڑھاتا ہوں، مجھے اس حلقے میں شامل کرلیجیئے۔ سننے والے نے کہا کہ ذر۱ اور سوچو۔
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
اس نے کہا کہ میں نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ میں کیا کررہا ہوں۔ میرا فیصلہ مشرق و مغرب کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ لیکن میں یہ اعلان عقل و ہوش اور قلب و نگاہ کی پوری تائید کے ساتھ کر رہا ہوں۔ اشھد ان لا الٰہ۔ اشھد ان لا ا لٰہ ۔ سننے والے نے کہا کہ
لا الٰہ گوئی بگو از روئے جاں تا زِ اندامِ تو آید بوئے جاں
ایں دو حرفِ لا اِ لٰہ گفتار نیست لا اِ لٰہ جز تیغِ بے زنہار نیست
زیستن با سوزِ او قہاری است لا اِ لٰہ ضرب است و ضربِ کاری است
اس نے کہا کہ میں نے سمجھ لیا۔ اب مجھے بتادیجیئے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کا سمجھنا کیا مشکل ہے۔ جاؤ دنیا میں چلو پھرو اور جہاں جہاں انسان اور خدا کے درمیان کوئی قوّت حائل نظر آئے، اسے درمیان سے ہٹادو تاکہ بندہ اپنے خدا کو اپنے سامنے بے حجاب دیکھ لےاور زمین اپنے پرورش کرنے والے کے نور سے جگمگا اٹھے۔ تم دیکھو گے کہ
ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہر یاری ہے قیامت ہے کہ انسان نوعِ انساں کا شکاری ہے
جاؤ اور صورِ اسرافیل لے کر ساری دنیا میں اعلان کردو کہ
سلطانیٔ جمہو ر کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹادو
تم دیکھوگے کہ اللہ کے دئیے ہوئے رزق کے س