نیکی تو عربی کا لفظ ہی نہیں ہے یہاں بر ہے یعنی وسعتیں‘ کشادگی اور زندگی کی وسعتیں ہی تو اصل شے ہے۔ اس کے لیے دوسرا لفظ خیر آتا ہے۔ جیسا میں نے کہا ہے کہ خیر کا مادہ (Root)تو وہی ہے جو ’’اختیار‘‘ کا ہے۔ یہ انسانی اختیارات کی وسعتیں ہیں۔ یہاں اس کو بر کہا ہے۔ زندگی کی کشاد کی راہ یہ نہیں ہے کہ تم ان رسومات کے الجھاؤ میں الجھ جاؤ۔ اگر صرف انہی میں الجھے رہو‘ زندگی تو ان کے اندر سمٹ جاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ کتنے ہی لوگ انہی چیزوں کو مقصود بالذات سمجھے ہوئے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ کتنے تنگ نظر ہوتے ہیں‘ ان کے اندر گھٹن ہوتی ہیں‘ ان کے ظرف کے اندر کشاد نہیں ہوتی۔ آپ کے پاؤں میں ذرا سا فاصلہ کم ہو‘ اس کے بعد دیکھیے کہ اس مسجد سے کس قسم کی پھر آپ کے خلاف آوازیں اٹھتی ہیں جو کفر تک جا کر منتج ہوتی ہیں۔ کئی نماز پڑھنے والے میرے ذہن میں ہے کہ انہوں نے مسجد میں جانا چھوڑ دیا۔ ایک عزیز ترین دوست کے ساتھ کیاہوا؟ یہ کہ مسجد میں وہ کھڑے تھے۔ نماز میں کھڑے ہوگئے‘ جو ساتھ کھڑا تھا اس نے نیت توڑی‘ جھٹ سے نیچے بیٹھا۔ وہ اس کی پتلون ٹخنے سے ذرا نیچے تھی‘ جلدی سے اس کو یوں یوں لپیٹ کر اس پتلون کی نیکر بنایا اور اس کے بعد پھر‘ اللہ اکبر کہہ کر‘ کھڑا ہوگیا۔ اپنے ذہن میں سمجھتا ہوگا ’’ پتہ نئیں کنا تیر ماریا جناب ۔ تیر وہ تھا کہ اس کے بعد ہمارے وہ دوست پھر مسجد میں نہیں گئے۔
برادرانِ عزیز! یہاں وہ بر کہتا ہے۔ آپ دیکھیے کہ جب آپ ان چیزوں میں الجھ کر انہی کو مقصود بالذات بنا لیتے ہیں تو تنگ نظری کتنی پیدا ہوتی ہے۔ آپ کی ساری لڑائیاں اس پہ ہو رہی ہیں کہ ہاتھ کہاں باندھنا چاہیے‘ کہاں کھولنا چاہیے۔ سر پھٹول ہو رہی ہے‘ مسجدوں پہ تالے پڑ رہے ہیں‘ پولیس میں رپورٹیں ہو رہی ہیں۔ کس بات کے اوپر یہ سب کچھ ہو رہا ہے؟ کہ جی! اس مسجد میں یہ آگیا جس نے رکوع میں جانے سے پہلے کانوں تک ہاتھ نہیں اٹھائے۔ نفرت‘ انتقام‘ تنگ نظری یہ ساری چیزیں پید اہو جاتی ہیں۔ اس سے آپ نے دیکھا قرآن نے بر کا لفظ یہاں کیوں استعمال کیا ہے؟ یہ زندگی کی وسعتیں‘ نگاہ میں کشادگیاں‘ مذہب کی جزئیات کی تنگ ناؤ میں گھر کر پیدا نہیں ہوسکتیں۔ آزادی میں بجرِ بے کراں ہے زندگی۔ زندگی کی وسعتیں ہوں تو پھر یہ نہ سمجھ لو کہ یہ چیزیں مقصود بالذات ہیں۔ جیسا میں کہا کرتا ہوں یہ بھی نہ سمجھ لیجیے کہ ان کی اہمیت نہیں ہے۔ وہ جو میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ فوج کے اندر سپاہی کے لیے تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کے بوٹ کے تسمے صحیح طریق کے اوپر بندھے ہوئے ہیں یا نہیں؟ اس کی پیٹی ٹھیک جگہ لگی ہوئی ہے یا نہیں؟ ڈسپلن کا یہ قاعدہ ہے لیکن ڈسپلن تو ایک نظم کے اندر ہے۔ اس نظم سے باہر ہونے کے بعد جب وہ فوج کا سپاہی نہیں‘ ریٹائر ہونے کے بعد گاؤں میں چلا گیا‘ وہ وردی بھی گھر میں لے جائے۔ نہایت ٹھیک طریقے کے اوپر اسی طرح سے وہ بوٹ کے تسمے باندھے‘ پیٹی بھی وہاں رکھے‘ اسی طرح سے استری کی ہوئی وردی بھی ہو‘ بندوق ہاں نہیں ہے تو چلو ڈنڈا ہی سہی‘ وہی ہاتھ میں لے لیا۔ اور اس کے بعد صبح اٹھ کر گاؤں کی گلی کے اندر لیفٹ رائٹ کرتا ہوا وہ چلا آئے اور یہ سمجھے کہ وہ جتنا کام فوج کے اندر کرتا تھا‘ وہ سارا پورا ہوگیا ہے‘ اب دشمن ادھر کا رخ نہیں کرسکتا سوچیے کہ یہ کتنا غلط ہے۔