اردو جواب پر خوش آمدید

0 ووٹس
639 مناظر
نے اردوجواب میں
مسئلہ طلاق قرآن کی روشنی میں‌

3 جوابات

+1 ووٹ
نے

 

(1) PART
 
طلاق طلاق طلاق
 
 ۔قرآن کر یم میں طلاق و ما بعد کی تمام تر تفصیل بڑی و ضا حت سے مو جود ہے۔فر ما یا و ان خفتم شقاق بینھما فا بعثوا حکمًا من اھلہٖ و حکمًا من اھلھا ان یرید اصلاحًا یوفق اﷲ بینھما ط ان اﷲ کان علیمًا خبیرًا(۳۵/۴)اگر تمہیں خد شہ ہو کہ میاں بیوی کے در میان ان بن ہے۔تو ایسی حا لت میں تم ایک حا کم عورت کی طرف سے لو ایک مرد کی طرف سے، اگر وہ اصلاح چا ہیں گے تو اﷲ ان میں موا فقت کریں گے کچھ شک نہیں کہ اﷲ کو ہر چیز کا علم ہے اور وہ ہر چیز سے با خبر ہے۔لیکن اگر حکما فیصلہ نہ کر سکے تو لا محا لہ با ت طلاق تک پہنچے گی۔بعد از طلاق عدت ھنوہ عدت شمار کر یں جو کہ ثلاثہ قروئٍ (۲۲۷/۲) تین حیض ہے۔اس کے بعد فر ما یا رب نے کہ۔ ۔ ۔ و بعو لتھن احق برد ھن فی ذٰلک ان ارا دو آ ا صلاحًا ۔ ۔ ۔ (۲۲۸/۲)اور ان کے خا وند اگر پھر موا فقت چا ہیں تو وہ ان کو زو جیت میں لینے کے زیا دہ حقدا ر ہیں۔الطلاق مر تٰن طلاق تو دو مر تبہ ہی دی جا سکتی ہے ۔اسکے بعد فا مساک بمعرو فٍ پھر عورت کو بطر یق شا ئستہ پکڑ کر گھر بٹھا دو یا۔ او تسریح با حسان(۲۲۹/۲) احسان کے سا تھ رخصت کر دو۔
اب اگر اﷲ نے طلاق کے بعد رجوع کی اجا زت دی ہے،اور یہ بھی فر ما یا کہ اگر میاں بیوی دو با رہ گھر بسا نا چا ہیں تو اس کا شوہر زیا دہ حقدا ر ہے اسے بیوی بنا نے کا۔اور یہ کہ بعد از طلاق چا ہو تو عدت گزر جا نے کے بعد بھی بیوی کو عزت کے سا تھ گھر بٹھا لو یا احسان کے سا تھ رخصت کر دواتنی بڑی رعا یت سے ثا بت ہوا کہ رب کی منشاء کیا ہے۔ یعنی واپسی کے چا نسس۔ اب جو لوگ بہ یک نشست تین یا کم و بیش طلا قوں کو حر ف آ خر سمجھتے ہیں اور اس کے بعد وا پسی کا در وا زہ بند کر تے ہیں۔تو یہ اﷲ کی منشا کے خلاف با ت ہوئی۔اور او پر کی رعا عتوں والی آ یات کو رد کر نے کے مترا دف ہے۔ اور جو لوگ اﷲ کے حکم کے خلاف اپنا حکم منوا تے ہیںان کا مقا م کیا ہے؟ وہ کس صف میں اپنے لئے جگہ بنا رہے ہیں یہ بھی معروف ہے ۔
بلا شبہ رب نے فر ما یا ہے کہ زندگی میں دو بار طلاق دی جا سکتی ہے۔لیکن اگر تیسری بار بھی طلاق دی گئی توفلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زو جًا غیر ہ ط فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یترا جعآ ان ظنآ ان یقیما حدود اﷲ(۲۳۰/۲)پھر وہ حلال نہ رہی حتیٰ کوئی اور اس سے نکاح کر لے پھر وہاں سے بھی طلاق ہو جا ئے تو پھر ان پر کو ئی گناہ نہیں اگر وہ زن و شو ہر بنیں اور حدود اﷲ کو قا ئم رکھیں۔لیکن ایسا کسی منصو بہ کے تحت نہ ہو۔
+1 ووٹ
نے

 

(2) PART
مثلاً
ایک محلہ میں یہ اصول ہو کہ کہ کسی غیر شا دی شدہ کو کرا یہ پر مکان نہیں دینا ہے۔اور کوئی شخص بازا ر سے کرا ئے کی کوئی عورت لا کر مکان حا صل کر لے پھر اس عو رت کو رخصت کر دے اور محلے وا لوں سے کہے کہ میری بیوی میکے گئی ہے۔یہ دھو کہ ہے۔اسی طرح کسی دو سرے شخص سے منصو بے کے تحت نکاح اور پھر طلاق ہوتویہ دھو کہ ہو گااور اﷲ کے سا تھ دھو کا کر نے وا لا مسلمان نہیںرہتا۔وہ جل جلا لہ یعلم ما فی صدور دلوں کے بھید جا نتا ہے۔
حلا لہ کے متعلق فر مان رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ و سلم ہے۔کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ قال لعن رسول اللہ صلے اﷲعلیہ و سلم علی محلل و المحلل لہ۔(۸/۳۱۵۰۔ مشکوٰۃ) فر ما یاعبد اﷲ بن مسعود ؓ نے کہ بھیجی ہے لعنت رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ و سلم نے حلا لہ کر نے وا لے اور جس کے لئے کی جا ئے اُن پر۔اب اگر حلا لہ منشاء الٰہی ہو تا توکیا رسول اللہ رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ و سلم حلا لہ کر نے وا لوں پرلعنت بھیج سکتے تھے؟وہؐ تو رحمت کی دعا کر تے
معا ملہ یوں ہے کہ دو سرے شو ہر سے بھی اگر اسے طلاق ہو جا ئے تو پھروہ کٹی پتنگ ہے ، جس سے جی چا ہے نکاح کر ے حتیٰ کے سا بقہ شوہر سے کیوں نہ ہو۔ہر کام کے لئے کوئی قا عدہ قا نون ضا بطہ اور اصول ہے۔نماز کے لئے بھی شروط ہیںپا کی، پھراستنجا، و ضو،لباس کا پاک ہو نا،قبلہ رو ہو نا،اور بر و قت۔تر تیب کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے مثلاً اگر اگر و ضو پہلے کر لیا جا ئے اور استنجابعد میںتب بھی مو لوی کہتا ہے تمہا ری نما ز نہیں ہوئی۔اسی طرح طلاق کے لئے بھی قا عدہ ہے۔(۱)اگر میاں بیوی کے در میان نا چا قی ہو تو دو حکما کا فیصلہ اگر با ت نہ بنی تو طلاق(۲) پھر عدت کا شما ر جو ثلاثہ قروء ہے یعنی تین حیض(۳)پھر عدت کے بعد رجوع کے موا قعے گھر سے رخصت کر نا یا گھر میں بٹھا لینا۔ان شرائط کو پو را کئے بغیر طلاق بھی وا قع نہیں ہو گی۔یہ بھی پیش نظر رہے کہ طلاق لفظوں کا الٹ پھر نہیںیہ ایک عمل ہے اگر کوئی شخص بیوی کو لے کر مجاز عدالت جائے۔ اور یہ کہے کہ ہم علیحد گی چا ہتے ہیں یعنی نکاح کے بندھن سے آزادی چا ہتے ہیں۔تب وہ اپنی معروف کا ر وا ئی کر یں گے۔اگر آپ یہاں جج کو قا ضی، ڈاکٹر کو حکیم یا طبیب نہیں کہتے۔مو ٹر کو سیا رہ اور بھنڈی کو با میہ نہیںکہتے تو آپ علیحدگی کو طلاق کیوں کہتے ہیں؟بعد میں اسی لفظ سے کا نپتے رہتے ہیں۔ کہ یہ میرے منہ سے کیا نکلا کہ بیوی حرام ہو گئی۔ 
+1 ووٹ
نے

 

(3) PART
عرض یہ ہے کہ پہلے تو یہ معلوم کر نا ہو گا کہ طلاق کے معنی کیا ہیں۔اگر نکاح کو ’ عقد‘‘ گرہ(کنٹریکٹ)بندھن کہتے ہیںجو فر یقین(مرد و زن)کے در میان یکجا ئی کر تا ہے۔تو نا چا قی ،نا اتفا قی،نہ نبھنے کی صور ت میں یہ گرہ کھل بھی سکتی ہے، یہ بند ھن ٹوٹ بھی سکتاہے۔جسے طلاق کہتے ہیں۔طلاق فریقین کو چھٹکا رہ اور آ زا دی د لا تا ہے۔مطلق العنان با د شاہ اُسے کہتے ہیں جس پر کسی قسم کی پا بندی نہ ہو، وہ فیصلہ کر نے میں مکمل طور پر آ زاد ہو۔اطلاق النا ر۔’’نار‘‘ تو سب ہی جا نتے ہیں کہ آگ کو کہتے ہیں اور بندوق کی گو لی (Round )کو ویسے تو (رمی۔ پھینکنے والی چیز)کہتے ہیں مگر دا غتے وقت( گو لی چھوڑتے وقت)اسے ’’النا ر‘‘ کہتے ہیںانگریزی میں (Round )کودا غتے و قت (Fire)کہتے ہیں۔ اسطرح ا طلاق النارجس میں طلاق کا لفظ وا ضح ہے کے معنی ہوئے’’گو لی جو بندوق یا پستول میں بند ہے اسے آزاد چھوڑدو‘‘و ایضاً بند قیدی کے آزا دی کے حکم پر جج پو لیس کے نام جو پروا نہ جا ری کر تا ہے اس میں لکھتا ہے۔اطلق سراحہ علیٰ مسجون فلان۔آزاد چھوڑ دیا جا ئے قیدی فلاں کو۔طلاق یا آزاد چھوڑ نا ہم معنیٰ لفظ ہے۔یہ ہم اپنی منکو حہ کے لئے دن میں کئی بار ادا کر تے ہیں، مثلا کہ تو آ زاد ہے، میں نے تمہیں آزاد چھوڑ رکھا ہے ، تمہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے، جو چا ہو کرو۔ اس سے میاں بیوی کی ازدوا جی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتاپھر عربی کے اس ہم معنی لفظ(طلاق) سے ازدوا جی زندگی کیسے منقطع ہو سکتی ہے؟طلاق لفظوں کا الٹ پھیر نہیں یہ عملی اقدام ہے۔جس طرح گذشتہ دنوں ۲۳ /ما رچ کو حکومت نے کہا کہ ملک کی سا لمیت کا عہد کر یں۔تو زبا نی عہد کر لینے سے ملک سا لم نہیں رہتا ملک کی سا لمیت کے لئے کچھ عملی طور پر کر نا پڑتا ہے ۔ طلاق کہنا نہیں،کر نا پڑتا ہے ۔
پا کستان میں آج کل انگریزی فلموں کے سا تھ عر بی میں تر جمہ دیا ہو تا ہے۔پچھلے د نوں ایک فلم میں پو لیس کتّوں کے سا تھ قا تلوں کا پیچھا کر رہی تھی۔کتّے سو نگھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ کہ آفیسر سپا ہیوں کو حکم دیتا ہے ۔ RELEASE THE DOOGS تر جمہ لکھا آ یا ۔ طلق علیھُم کلاب۔ہمارے بزرگان اس کا تر جمہ یہی کر یں گے (کتّوں کو طلاق دو) حا لانکہ اس کا تر جمہ ہے ۔ان پر کتّے چھوڑ دو۔اپنی اپنی زبا ن ہے ان کی زبان میں چھوڑنے آ زاد کر نے کو طلاق کہتے ہیں ۔ لیکن طلاق کہنے سے کتّے آ زا د نہ ہوئے محا فظوں کو کتے آ زا د کر نے پڑے ان کے پٹے کھو لنے پڑے۔ عورت کو طلاق کہنے سے وہ طلاق نہیں ہو جا تی طلاق کہنے کی چیز نہیں کر نے کا عمل ہے اس کا طریقہ او پر بیان ہو چکا ہے۔
شا دی بیاہ نکاح پہلے ز مانے کا ہو یا اب کا یہ اکیلے کا سو دا نہیں کہ را ستے میں یا پا رک میں کو ئی لڑکی ملی مرد نے کہا با ت سنو میں تمہیں قبول کرتا ہوں کیا تم بھی مجھے قبول کر تی ہو؟ لڑکی نے کہا ہاںاور نکاح ہو گیا۔اس کے لئے کوئی طریقہ قا عدہ اصول اور ضا بطہ ہے۔ ولی ہو تا ہے فر یقین کے ماں با پ ہو تے ہیں گواہ ہو تے ہیں ، ان کے سا منے کسی عو رت کو بیوی بنا یا ہے ۔اگر دو بدو اکیلے میں بیوی نہیں بنا یا توا کیلے میں چھوڑ ا بھی نہیں جا سکتا۔تحریر گواہ و غیرہ بعد کی پیچید کیوں میں کام آ تے ہیں ۔ھٰذہ زبد ۃ الکلام۔
 

متعلقہ سوالات

0 ووٹس
0 جوابات 579 مناظر
0 ووٹس
1 جواب 299 مناظر
0 ووٹس
2 جوابات 1.5ہزار مناظر

السلام علیکم!

ارود جواب پرخوش آمدید۔

کیا آپ کے ذہن میں کوئی ایسا سوال ہے جس کا جواب جاننا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں! تو آپ بالکل درست جگہ آئے ہیں۔ کیونکہ اردو جواب پر فراہم کیے جاتے ہیں آپ کے سوالات کے جوابات، وہ بھی انتہائی آسان لفظوں میں۔ سوال خواہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو مگر ہمارے ماہرین کیلئے کچھ بھی مشکل نہیں۔ تو ابھی اپنا سوال پوچھیے اور جواب حاصل کیجئے۔

اگر آپ بھی اردو جواب پر موجود کسی سوال کا جواب جانتے ہیں تو جواب دے کر لوگوں میں علم بانٹیں، کیونکہ علم بانٹے سے ہی بڑھتا ہے۔ تو آج اور ابھی ہماری ٹیم میں شامل ہوں۔

اگر سائٹ کے استعمال میں کہیں بھی دشواری کا سامنا ہو تودرپیش مسائل سے ہمیں ضرور آگاہ کیجیئے تاکہ ان کو حل کیا جا سکے۔

شکریہ



Pak Urdu Installer

ہمارے نئے اراکین

740 سوالات

790 جوابات

411 تبصرے

550 صارفین

...