اردو جواب پر خوش آمدید

0 ووٹس
780 مناظر
نے اردوجواب میں
جاننا چاہیں‌گے کہ ان دونوں‌میں‌فرق کیا ہے؟

2 جوابات

0 ووٹس
نے

 

عبد الشمس عر بی میں سو رج مکھی کے پھول کو کہتے ہیں۔تو اس کے یہ معنی تو نہیں کہ وہ پھول سو رج کی عبا دت کر تا ہے۔ سجدے کرتا ہے۔ فر عون و مو سیٰ علیہ السلام میں جو مکا لمہ ہوا تو مو سیٰ علیہ السلام نے فر ما یا و تلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرآئِ یل۲۲/۲۶)اور یہی احسان ہے جو آپ مجھ پر جتا رہے ہیں کہ آپ نے بنی اسرا ئیل کو ’’ عبدت‘‘ غلام بنا رکھا ہے۔
تو فر عون نے جو بنی اسرا ئیل کو’’ عبید ‘‘بنا یا تھا تو وہ ان سے اپنے آپ کو سجدے نہیں کر وا رہا تھا ،وہ ان سے نہا یت مشقت وا لا کام لیتا تھا۔نو کر ہو، خا دم ہو، فر ماںبر دا ر ہو،خدمت گزا ر ہو غلام ہو عبد ہو،اسے ما لک یعنی آ قا نے کام کے لئے رکھا ہو تا ہے اس کے کچھ فرا ئض ہو تے ہیں۔جو اس نے انجام دینے ہوتے ہیں۔اب اگر مالک حکم دے کہ شبرا تی چار پائی دھوپ میں بچھا دو، گاؤ تکیہ رکھ دو اور اندر سے چائے لا ؤ۔شبرا تی سجدے کر نے لگے۔ ما لک کہے آج کا اخبار لاؤ شبرا تی پھر سجدے میں چلا جا ئے۔ما لک کہے حقہ بھر لا ، ایک اور سجدہ ما لک کو کر ے۔ما لک اسے جو تے ما ر کر کہے گا کہ تجھے جس کام کے لئے رکھا ہے وہ تو تو کرتا نہیں البتہ سجدے کئے جا رہا ہے، کیا تیرا دماغ خراب ہے۔اگر وہ نو کر ہے تو ایسے نو کر کو وہ نو کری سے نکا ل دے گا اگر غلام ہے تو ایسے نکمے غلام کو فرو خت کر دے گا۔
عزیزانِ من ذرا اپنی حا لت پر غور کیجئے کہ کیا ہم اُس نکمے عبدکی طرح نہیں ہیں جو اللہ کی محکو میت فرماں بر دا ری تو نہیں اختیار کر تا ،البتہ اس کی پر ستش کئے چلا جا رہا ہے۔ اللہ کے ہاں انسا ن کا بہتر ین عمل جسے بقاء حا صل رہتی ہے وہ ہے۔و اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض(۱۷/۱۳)وہ جونوع انسا نی کو فا ئدہ پہنچا تا ہے۔اِس صف میں ڈاکٹر سب سے آ گے ہے۔ہر سر کا ری ملازم کی عبا دت یہ ہے کہ وہ پبلک کے کام نمٹائے۔وہ فرا ئض انجام دے جس کے لئے اسے سرونٹ رکھا گیا ہے اور اسے ما ہا نہ تنخواہ دی جا تی ہے۔اسی قسم کی عبا دت دیگر مخلو قات بھی سر انجام دیتی ہے۔ مثلاً اﷲ نے فرما یا۔الم تران اﷲ یسبح لہ من فی السمٰوات و الارض و الطیر صٰٓفٰتٍ کل قد علم صلا تہ و تسبیحہ ط واﷲ علیم بما یفعلون(۴۱/۲۴)کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو آسما نوں اور زمین میں ہے اﷲ کی تسبیح کر تے ہیں اور پر پھیلائے ہوئے پر ندے جا نور بھی اپنی اپنی صلاۃ اورتسبیح سے وا قف ہیں۔قد علم صلا تہ و تسبیحہ۔فر ما یئے۔اگر عبا دت نماز ہی ہے تو پر ندے و ضو کیسے کر تے ہیں منہ کس سمت کو ہو تا ہے ،کتنے رکعت پڑھتے ہیں اور کن او قات میں پڑھتے ہیں۔در اصل وہ اپنے اپنے فرائض ادا کر رہے ہو تے ہیں۔یہی ان کی صلوٰۃ اور عبا دت ہے۔ 
 
سوال کا حصہ نمبر 2
بہت اچھی طرح سے فرق واضح کیا آپ نے دونوںالفاظ میں لیکن معافی چاہوں گا آپ نے لفظ عبادت کی تشریح نہیں کی ۔ جس آیت کریمہ کا حوالہ آپ نے دیا اس آیت کی تشریح حضرت عبد اللہ ابن عباس  ان الفاظ میں کرتے ہیں (ترجمہ) بے شک میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے بنایا تاکہ میری پہچان ہو سکے۔ حدیث قدسی میں ارشادہوا کہ "کنتُ کنزاً مخفیاً فارَدتُ اَن اُعرفَ فخلَقتُ الخق" (ترجمہ) میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس جب میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاوں تحقیق میں مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ۔ اب اگر ہم حضرت عبداللہ ابن عباس کے ارشاد اور اس حدیث قدسی کو غور سے دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی پہچان ہے ۔ ورنہ اگر بنی نوع انسان اور جنات کو سرف عبادت یعنی تسبیح وغیرہ کے لیے پیدا کرنا مقصود ہوتا تو فرشتے کیا کم تھے ۔ عبادت کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل کرنا ہے اور پہچان دو طرح کی ہوتی ہے ایک آفاقی اور دوسری ذاتی ۔ آفاقی پہچان سے مطلب اس کائنات کی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو دیکھ کر اس کی پہچاننا کہ وہی ذات واحد ہے جو لاشریک ہے اور دوسری پہچان ذاتی ہے یعنی کسی کو دیکھ کر اس کی پہچان ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص یا تو آپ کے بہت قریب ہو یا آپ نے اسے پہلے کہیں دیکھا ہو۔ اب اللہ تعالیٰ ہمارے کتنے قریب ہے تو خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بندہ کی شہہ رگ سے بھی قریب ہوں" اب اس مثال سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے قریب ہونے کے باوجود ہمیں اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل کیوں نہیں ہوتی وہ ہمیں دکھائی کیوں نہیں دیتا تو آپ یوں دیکھ لیں کہ ہمارے چہرے پر موجود ہماری آنکھیں ہر شے کو دیکھ سکتی ہیں مگر آنکھوں کے ساتھ جڑے اس چہرے یا انتہائی قریب بالوں کو بھی نہیں دیکھ پاتی۔ اب اپنا چہرہ دیکھنا کے لیے ہمیں آئینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کے ذاتی انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرنا ہے تو خود اللہ تعالیٰ نے فرمای  " قلب المومن مرآۃ الرحمٰن"یعنی مومن کا دل رحمٰن کا آئینہ ہے " اب ہم سب مسلمان کیا دل نہیں رکھتے اور اگر رکھتے ہیں تو اللہ تعالی کی ذات کو کیوں نہیں پہچانتے تو عرض ہے کہ ہمارے دل زنگ آلود ہو چکے ہیں اس مادیت پرستی کی وجہ سے۔دوسری مثال کہ اگر کسی چیز کی پہچان کرنی ہے تو اسے پہلے سے دیکھنا ضروری ہے تو کیا ہم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہوا ہے کہ ہم اس کی پہچان کریں گے ؟ جی ہاں آپ اگر عالم ارواح کے اس واقعے کی جانب جائیں کہ جب مقام الست پر تمام ارواح کو اکٹھا کر کے اللہ تعالی نےان سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں تو تمام ارواح نے جواب دیا کہ قالو بلیٰ کہا ہاں تو ہمارا رب ہے ان ارواح میں تمام انسانوں کی ارواح بھی شامل تھیں تو ان ارواح نے اللہ تعالیٰ کے انوارو تجلےات کو مشاہدہ کرنے کے بعد ہی اثبات میں جواب دیا تھا۔ تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے اس دنیامیں انسان کے آنے کا مقصد فقط اللہ تعالیٰ کی پہچان ہے جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ " درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ۔۔۔۔ ورنہ عبادت کو کم نہ تھے کروبیاں ۔۔۔ " یہاں درد دل سے مراد اللہ تعالیٰ کی پہچان ہے 
0 ووٹس
نے

 

و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبد ون (۵۶/۵۱)
’’اور ہم نے جن اور انس کو اپنی عبا دت کے لئے پیدا کیاہے‘‘
 
اگر ہم عبد کے معنی صحیح طور پر سمجھ لیںتو ہما ری نیّا پار لگ جا ئے گی۔یہ عر بی کلمہ ہے قرآن پاک میں متعدد بار آ یا ہے۔اسی سے لفظ عبا دت بنا ہے، دین کی بنیاد عبا دت پر ہے اس لئے اس کا صحیح مفہوم سمجھ لینا نہا یت ہی ضرو ری ہے۔ عبد کے معنی غلام اور محکوم فر ماں بر دا ر کے ہو تے ہیں، جمع ہے عَبِید٘۔اسی لئے عبا دت کے معنی ہیں کسی کی محکو می اور اطا عت اختیار کر نا، دین کی بنیا د اس اصولِ محکم پر ہے کہ اطا عت اور محکومیت قوا نین الٰہی کے سوا اور کسی کی نہیںہو سکتی ۔ اسی کا نام اللہ کی عبا دت ہے۔یعنی ہر معا ملہ میں قوا نین اور احکام الٰہی کی اطا عت کر نا۔
جب دین مذہب میں تبد یل ہو جا تا ہے تو عبا دت سے مرا د پر ستش ہو جا تی ہے ، پر ستش کا تصور دینی یا (قرآ نی) نہیں۔دین میں اللہ کی پر ستش نہیں کی جا تی اس کی اطا عت کی جا تی ہے۔قرآن کر یم میں جہاں یہ لفظ اللہ کے لئے آ یا ہے ، تو اس کے معنی اللہ کی اطا عت ہیں۔لیکن جہاں یہ لفظ کفار اور مشر کین کے با رے میں آ یا ہے وہاں اس کے معنی (ان کے تصور کے مطا بق) اس سے مرا د پر ستش ہے۔اس لئے کہ وہ اپنے معبو دوں کی پر ستش کیاکر تے تھے اور اس کے لئے یہی لفظ بو لتے تھے۔قرآن نے ان مقا مات پر اس لفظ کو انہی مفہوم میں استعما ل کیا ہے۔
دین اور مذہب میں یہ بنیا دی فرق ہے ۔ اطا عت اور محکو میت میں یہ با ت ہر وقت دیکھی اور پر کھی جاسکتی ہے کہ اللہ کی عبا دت ، ہو رہی ہے یا نہیں۔لیکن پر ستش محض ایک دا خلی جذبہ ہے یا قیا سی تسکین (فریب نفس) جسے دیکھا یا پر کھا نہیں جا سکتا۔ اس لئے ہر پر ستش کر نے وا لا ، اپنے دل میں مطمئن ہو جا تا ہے ، کہ وہ اپنا فر یضہ ادا کر رہا ہے۔ اطا عت(دین کی عبا دت) میں نہ ایسا فر یب دیا جا سکتا ہے ، نہ اس قسم کا جھوٹا اطمینان حا صل ہو سکتا ہے ۔ معبود کا لفظ قرآن کر یم میں نہیں آ یا ۔ جہاں جہاں یہ لکھا ہے کہ ہم صرف تیری عبا دت کر تے ہیں(یا اسی قسم کے اور الفاظ) تو اس سے مرا د ہے ہم صرف قو ا نیں الٰہی کی اطا عت کر تے ہیں(تبو یب القرآن)
عر بی قو ا میس میں عبد کے معنی Slave-Servant-Black Negro اور عبو دیت کے معنی ہیںSlavery اور عبا دت کے معنی ہیں۔Obedienceان تمام الفاظ کے معنی محکومی، تا بعدا ری ،فر ماں بر دا ری خدمت گزا ری ہی بنتا ہے۔عر ب در خوا ست کے نیچے ۔ Obedient Servant کی جگہ مخلص یا عبد ک مطیع لکھتے ہیں یعنی آپ کا تابعدا ر بندہ ۔خلیج کی ہر ریا ست مع سعودی عر بیہ غلاموں سے بھری پڑی ہیں۔ہر بڑے گھر میں عبد اور عبدا ت (کنیزیں) ہو تی ہیں۔تیس سا لہ زندگی میں میں نے کبھی کسی عبد(غلام) کو آ قا کے سا منے سجدہ ریزہوتے نہیں دیکھا۔ نہ ہی انہوں نے عَبِِید کوپرستش کے لئے رکھا ہو تا ہے۔ چا ہے ڈرا ئیور ہو یا گھر یلو خا دم ،عبد نے اپنے ما لک کے حکم پر لبیک کہنا ہے اور یہی کچھ دیکھا ہے۔یعنی نہ تو عبد کے معنی ہیں پر ستش کر نے وا لا ، نہ ہی عبا دت کے معنی پر ستش کے ہیں۔
قرآن کر یم میں جہاں یہ آ یا ہے کہ یا بنی اٰدم ان لا تعبد الشیطان (۶۰/۳۶)(عام ترجمہ) اے بنی آ دم شیطان کی عبادت مت کرو۔ تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کوئی قوم یا فرد وا حد شیطان کو سجدے کر رہا تھا، یعنی پر ستش کر رہا تھا جس سے اللہ نے رو کا۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ شیطان کی فرماں بر دا ری مت کرو ، اس کے بتائے ہوئے را ستے پر مت چلو اس کی محکو میت مت اختیار کر

متعلقہ سوالات

0 ووٹس
1 جواب 299 مناظر
0 ووٹس
1 جواب 624 مناظر
0 ووٹس
1 جواب 2.3ہزار مناظر
0 ووٹس
1 جواب 222 مناظر
گمنام نے پوچھا اردوجواب میں 2 اپریل, 2013
0 ووٹس
5 جوابات 1.4ہزار مناظر

السلام علیکم!

ارود جواب پرخوش آمدید۔

کیا آپ کے ذہن میں کوئی ایسا سوال ہے جس کا جواب جاننا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں! تو آپ بالکل درست جگہ آئے ہیں۔ کیونکہ اردو جواب پر فراہم کیے جاتے ہیں آپ کے سوالات کے جوابات، وہ بھی انتہائی آسان لفظوں میں۔ سوال خواہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو مگر ہمارے ماہرین کیلئے کچھ بھی مشکل نہیں۔ تو ابھی اپنا سوال پوچھیے اور جواب حاصل کیجئے۔

اگر آپ بھی اردو جواب پر موجود کسی سوال کا جواب جانتے ہیں تو جواب دے کر لوگوں میں علم بانٹیں، کیونکہ علم بانٹے سے ہی بڑھتا ہے۔ تو آج اور ابھی ہماری ٹیم میں شامل ہوں۔

اگر سائٹ کے استعمال میں کہیں بھی دشواری کا سامنا ہو تودرپیش مسائل سے ہمیں ضرور آگاہ کیجیئے تاکہ ان کو حل کیا جا سکے۔

شکریہ



Pak Urdu Installer

ہمارے نئے اراکین

740 سوالات

790 جوابات

411 تبصرے

550 صارفین

...