و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبد ون (۵۶/۵۱)
’’اور ہم نے جن اور انس کو اپنی عبا دت کے لئے پیدا کیاہے‘‘
اگر ہم عبد کے معنی صحیح طور پر سمجھ لیںتو ہما ری نیّا پار لگ جا ئے گی۔یہ عر بی کلمہ ہے قرآن پاک میں متعدد بار آ یا ہے۔اسی سے لفظ عبا دت بنا ہے، دین کی بنیاد عبا دت پر ہے اس لئے اس کا صحیح مفہوم سمجھ لینا نہا یت ہی ضرو ری ہے۔ عبد کے معنی غلام اور محکوم فر ماں بر دا ر کے ہو تے ہیں، جمع ہے عَبِید٘۔اسی لئے عبا دت کے معنی ہیں کسی کی محکو می اور اطا عت اختیار کر نا، دین کی بنیا د اس اصولِ محکم پر ہے کہ اطا عت اور محکومیت قوا نین الٰہی کے سوا اور کسی کی نہیںہو سکتی ۔ اسی کا نام اللہ کی عبا دت ہے۔یعنی ہر معا ملہ میں قوا نین اور احکام الٰہی کی اطا عت کر نا۔
جب دین مذہب میں تبد یل ہو جا تا ہے تو عبا دت سے مرا د پر ستش ہو جا تی ہے ، پر ستش کا تصور دینی یا (قرآ نی) نہیں۔دین میں اللہ کی پر ستش نہیں کی جا تی اس کی اطا عت کی جا تی ہے۔قرآن کر یم میں جہاں یہ لفظ اللہ کے لئے آ یا ہے ، تو اس کے معنی اللہ کی اطا عت ہیں۔لیکن جہاں یہ لفظ کفار اور مشر کین کے با رے میں آ یا ہے وہاں اس کے معنی (ان کے تصور کے مطا بق) اس سے مرا د پر ستش ہے۔اس لئے کہ وہ اپنے معبو دوں کی پر ستش کیاکر تے تھے اور اس کے لئے یہی لفظ بو لتے تھے۔قرآن نے ان مقا مات پر اس لفظ کو انہی مفہوم میں استعما ل کیا ہے۔
دین اور مذہب میں یہ بنیا دی فرق ہے ۔ اطا عت اور محکو میت میں یہ با ت ہر وقت دیکھی اور پر کھی جاسکتی ہے کہ اللہ کی عبا دت ، ہو رہی ہے یا نہیں۔لیکن پر ستش محض ایک دا خلی جذبہ ہے یا قیا سی تسکین (فریب نفس) جسے دیکھا یا پر کھا نہیں جا سکتا۔ اس لئے ہر پر ستش کر نے وا لا ، اپنے دل میں مطمئن ہو جا تا ہے ، کہ وہ اپنا فر یضہ ادا کر رہا ہے۔ اطا عت(دین کی عبا دت) میں نہ ایسا فر یب دیا جا سکتا ہے ، نہ اس قسم کا جھوٹا اطمینان حا صل ہو سکتا ہے ۔ معبود کا لفظ قرآن کر یم میں نہیں آ یا ۔ جہاں جہاں یہ لکھا ہے کہ ہم صرف تیری عبا دت کر تے ہیں(یا اسی قسم کے اور الفاظ) تو اس سے مرا د ہے ہم صرف قو ا نیں الٰہی کی اطا عت کر تے ہیں(تبو یب القرآن)
عر بی قو ا میس میں عبد کے معنی Slave-Servant-Black Negro اور عبو دیت کے معنی ہیںSlavery اور عبا دت کے معنی ہیں۔Obedienceان تمام الفاظ کے معنی محکومی، تا بعدا ری ،فر ماں بر دا ری خدمت گزا ری ہی بنتا ہے۔عر ب در خوا ست کے نیچے ۔ Obedient Servant کی جگہ مخلص یا عبد ک مطیع لکھتے ہیں یعنی آپ کا تابعدا ر بندہ ۔خلیج کی ہر ریا ست مع سعودی عر بیہ غلاموں سے بھری پڑی ہیں۔ہر بڑے گھر میں عبد اور عبدا ت (کنیزیں) ہو تی ہیں۔تیس سا لہ زندگی میں میں نے کبھی کسی عبد(غلام) کو آ قا کے سا منے سجدہ ریزہوتے نہیں دیکھا۔ نہ ہی انہوں نے عَبِِید کوپرستش کے لئے رکھا ہو تا ہے۔ چا ہے ڈرا ئیور ہو یا گھر یلو خا دم ،عبد نے اپنے ما لک کے حکم پر لبیک کہنا ہے اور یہی کچھ دیکھا ہے۔یعنی نہ تو عبد کے معنی ہیں پر ستش کر نے وا لا ، نہ ہی عبا دت کے معنی پر ستش کے ہیں۔
قرآن کر یم میں جہاں یہ آ یا ہے کہ یا بنی اٰدم ان لا تعبد الشیطان (۶۰/۳۶)(عام ترجمہ) اے بنی آ دم شیطان کی عبادت مت کرو۔ تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کوئی قوم یا فرد وا حد شیطان کو سجدے کر رہا تھا، یعنی پر ستش کر رہا تھا جس سے اللہ نے رو کا۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ شیطان کی فرماں بر دا ری مت کرو ، اس کے بتائے ہوئے را ستے پر مت چلو اس کی محکو میت مت اختیار کر