اس سوال کا جواب مختلف صورتوں میں مختلف ہوسکتا ہے۔ اس لیے کوشش کرتا ہوں کہ ترتیب وار جواب دے سکوں۔
1۔ اگر آپ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں تو اس صورت میں بہترین یہی ہے کہ آپ اپنے والدین کے ساتھ رہیں کیونکہ آپ کو اپنے والدین کی دعاؤں کی اور آپ کے والدین کو آپ کی ضرورت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا بھی فرمان ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔
2۔ اگر آپ کی فیملی بڑی ہے اور آپ سے چھوٹے بہن بھائی بھی ہیں تو اس صورت میں کم از کم اس وقت تک والدین کے ساتھ لازمی رہیں جب تک کہ آپ کے بچے بلوغت کی عمر نہیں پہنچ جاتے۔ کیونکہ ایک تو چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے آپ جسم کے ایک لازمی جزو کی طرح ہیں تو دوسری طرف آپ کے بچے جب فیملی میں اور بڑے بزرگوں کے ساتھ رہیں گے تو وہ ان سے اچھی باتیں سیکھیں گے جو کہ شاید ہم خود انہیں چاہنے کے باوجود بھی نہ سکھا سکیں۔ اس کے علاوہ والدین اور بزرگوں کا تجربہ بچوں کے متعلق ہم سے زیادہ ہوتا ہے۔ انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح کے بچے کو کس انداز میں ڈیل کرنا ہے اور اس سے کوئی بھی بات کیسے منوانی ہے یا اسے کوئی بات کیسے سکھانی ہے۔
3۔ جب گھر میں اکثر لڑائی جھگڑا رہنے لگے تو پھر بہتر ہے کہ صلح صفائی کے ساتھ اور ہنسی خوشی الگ ہوا جائے نا کہ لڑ جھگڑ کر۔ کیونکہ ہنسی خوشی الگ ہونے سے کسی کا دل نہیں ٹوٹے گا اور بچوں کے نازک رشتے بھی بچیں رہیں گے۔ ایک نہ ایک دن تو ہم نے الگ ہونا ہی ہوتا ہے تو بہتر یہی ہوتا ہے کہ والدین کی موجودگی میں ہی یہ احسن طریقہ سے اور ان کی اجازت سے یہ کام کیا جائے۔
4۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق تو جب گھر میں موجود افراد کے لئے کوئی نامحرم آجائے اور آسانی بھی ہو تو فوری الگ ہوجانا چاہیئے بلکہ والدین کا فرض بنتا ہے کہ شادی سے پہلے ہی بیٹے کے لیے الگ گھر کا بندو بست ہو خواہ کرائے کا مکان ہو۔ کیونکہ اس طرح بعد میں پیدا ہونے والے جھگڑے پیدا ہی نہیں ہوتے۔
نوٹ: پہلی 3 صورتیں بطور خاص مشرق روایات (پاکستان و ہند وغیرہ) کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہیں۔