[big]آپ غور کیجیے کہ قرآن کس طرح Facts(حقائق) کو سامنے رکھتا ہے‘ یہ شاعروں کی دنیا میں نہیں بساتا۔ وہ آپ کو کہتا ہے کہ یہ ہوسکتا ہے‘ اس میں انسان ہی تو بستے ہیں‘ یہاں فرشتے تو نہیں بستے لیکن فرق ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آؤ تمہیں بتائیں کہ متقی کسے کہتے ہیں؟ وہ فطرت کی قوتوں کو مسخر کرنے کے لیے اس کارگۂ کائنات میں پھر رہا ہے۔ معاملات کی دنیا کے اندر آیا ہے۔ کہا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ ٰطٓءِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ (7:201) متقی اسے کہیں گے کہ چلتے پھرتے‘ اگر کہیں سے گھومتے گھماتے بھی کوئی شیطانی خیال اس کے سامنے آگیا ہے قرآنِ کریم نے اسے طٰیِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ (7:201) کہا ہے۔ کیا بات ہے! یعنی اس میں دانستہ طور پر Purposely (مقصداً) یہ بات نہیں ہے کہ وہ گیا ہی اس طرف ہے‘ نہیں! بلکہ کہیں چل پھر رہا ہے۔ اور غلط معاشرے کے متعلق تو اس نے کہا ہے کہ اس میں شرمستطیرا (76:71) ہوتا ہے یعنی شرکی چنگاریاں اڑ کر لگ جایا کرتی ہیں۔ کہا ہے کہ طٰیِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ (7:201) یونہی گھومتے پھرتے چلتے ہوئے فضا کے اندر کوئی ایک اس قسم کا خیال تھا وہ ذرا سا آگیا۔ اب یہاں متقی اور غیر متقی کا فرق پیدا ہوا۔ کہا ہے کہ اس کے ہاں بھی ذرا سا خیال آیا تَذَکَّرُوْا (7:201) اس نے فوراً قرآن کی قدر اور قرآن کے قانون کو اپنے سامنے رکھا‘ اس نے اس کی یاددہانی کرلی‘ اس کو وہ فوراً یاد آگیا کہ نہیں! قرآن کا فیصلہ یہ ہے‘ اُس کی قدر یہ ہے‘ اُس کا قانون یہ ہے۔ جب یہ چیز آئی تو کیا ہوا؟ کہا کہ فَاِذَا ہُمْ مُّبْصِرُوْنَ (7:201) اُس کی آنکھیں کھل گئیں ۔ اس نے کہا کہ نہیں‘ یوں نہیں جانا۔ مُبْصِرُوْنَ (7:201) تھوڑی سی تاریکی آئی تھی‘ ذرا سا گھومتا ہوا خیال آیا تھا‘ سورج کے سامنے بادل کا ایک ٹکڑا آگیا تھا‘ اس میں ذرا سی تاریکی آئی ‘گھومتے ہوئے بھی یہ خیال آیا ‘متقی وہ ہے کہ اس وقت فوراً خدا کا قانون اس کی نگاہوں کے سامنے آگیا اور جونہی وہ آیا تو فاذا ہم مُبْصِرُوْنَ (7:201)۔ عربی جاننے والے حضرات ہی اس کی داد دیں گے کہ قرآن کا اندازِ بیان کیا ہے۔ کہا ہے کہ فاذا ہم مُبْصِرُوْنَ (7:201) ارے وہ دیکھو! جیسے ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ سورج کے سامنے سے وہ بادل چھٹ گیا‘ وہ نورانیت پھر اس کے اندر آگئی۔ یہ ہے متقی۔ متقی وہ ہے جو پہلے اس کائنات کی ان قوتوں کو مسخر کرے اور ان پر غور و فکر کرتا چلا جائے۔ یہ خالص Intellectual Process (ذہنی عمل) ہے‘ بالکل ذہنی چیز ہے۔ ہر سائنٹسٹ یہ ہوسکتا ہے‘ ہر قوم یہ کرسکتی ہے لیکن اگلی چیز اب قرآن کے متقی کی خصوصیت آگئی ہے کہ جس میں اگر کوئی چیز بھی غیرقانونی‘ غیرخداوندی اقدار کی گھومتے پھرتے بھی ذہن میں آئی تو وہ فوراً خدا کے قانون کو سامنے لے آیا‘ اس کی آنکھیں کھل گئیں‘ صحیح راستے کے اوپر چل پڑا۔ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (2:2) ۔ دیکھتے جارہے ہیں آپ! کہ یہ صحیح راستہ ابھر کر کن کے سامنے آتا ہے؟ قرآن کی رو سے پہلی چیز ہم نے یہ دیکھی کہ اس کارگۂ کائنات میں غور و فکر کرنے والوں کے سامنے وہ صحیح راستہ ابھر اور نکھر کر آجاتا ہے۔ عزیزانِ من! وہ جو کہا جاتا ہے کہ یہ وعظ و نصیحت اور اخلاقیات ہی کی کتاب ہے‘ اب غور کیجیے کہ کائنات پہ غور و فکر کرنے والوں کے لیے بھی اس میں Guidance (راہنمائی) ملتی ہے۔ اور وہ جو اس نقطہ نگاہ کو لے کر قرآن کے اندر چلتے ہیں اور یہاں سے راہنمائی لیتے ہیں تو ان سے پوچھیے کہ کیا کیا راستے ان کے سامنے صاف ہوج