تقسیم ہندسے قبل برطانوی دورِحکومت میں برطانوی حکومت اور افغانستان کے درمیان سرحدی حدود کو متعین کرنے کے لئے ایک معاہدہ طے پایا تھا جسے "ڈیورینڈ لائن " کا نام دیا گیا۔
1892 میں افغانستان کے امیر،عبدالرحمٰن کے وفا داروں نے "اسمار" کے علاقے پر قبضہ کر لیاتھا۔ اُس وقت "اسمار" باجوڑ ایجنسی کا علاقہ تھا۔ برطانوی حکومت کے سیکٹری خارجہ مورٹیمر ڈیورینڈ نے افغانستان اور اپنی حکومت کے درمیان اس معاہدے کی راہ ہموار کی، البتہ اُس وقت کے "جندول اور دیر "کے حکمران عمرا خان نے اس کی مخالفت کی اور اپنے زیرِ اثر علاقے میں کئی انگریزوں کو گرفتار کر لیا ، انگریزوں نے فوجی کاروائی کے ذریعے عمرا خان کومعزول کر دیا۔ اس طرح اس معاہدے پر دستخط کر دیئے گئے۔
ڈیورینڈ معاہدہ 1893 میں عمل میں آیا اور اُس وقت دریائے کنڑ کا سارا علاقہ چترال اور باجوڑ میں شامل تھا۔اس معاہدے کے بعد افغانستان نے کنڑ کے سارے علاقے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کر دیا اور معاہدہ طے پانے کے باوجود انگریزوں نے کنڑ کا علاقہ بھی افغانستان کے حوالے کر دیا۔حقیقت تو یہ ہے افغانستان نے ڈیورینڈ معاہدے سے کافی فوائد اُٹھائے ہیں اور باجوڑ،چترال،دیر،مہمند ایجنسی، اور وزیرستان کے کئی علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے 1919 سے قبل طورخم سرحد ڈحکہ تک تھی مگر 1919ء میں افغانستان اور برطانیہ کے درمیان جنگ کے بعد مزید علاقہ افغانستان کے حوالے کیا گیا،اس طرح افغانستان کی سرحد طوخم تک پہنچ گئی۔
حیرت کا مقام ہے کہ افغانستان اب بھی ڈیورینڈ معاہدے کا بہانہ بنا کر پاکستان کے علاقے" اٹک" تک کو اپنا علاقہ تصور کرتا ہے۔افغانستان کا دعویٰ ہے کہ ڈیورینڈ معاہدہ ایک سو سال کے لئے تھا جو 1993 ء میں ختم ہو چکا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے میں اس طرح کی کسی مدت کا ذکر نہیں تھا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان نے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور مختلف ریشہ دوانیوں کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کے درپے رہا ہے۔ پاکستان کی مشکلات میں اضافے کے لئے ہی وہ افغانوں کو پاکستان کے خلاف اُ کسا تا رہا ہے۔ ڈیورینڈ معاہدے کی ایک سو سال کی معیاد کا شوشہ برطانیہ میں مقیم ایک بھارتی پروفیسر ڈبلیو پی ایس سدھو نے چھوڑا تھا اسی طرح کے شوشوں میں افغانستان میں مقیم جی اوف روشن اور ناگا ساکی یونیورسٹی کے پوفیسر ڈاکٹر دیپک باسو بھی شامل ہیں۔
پاک افغان سرحد پر کشیدگی کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ افغان موجودہ بارڈر کو تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کی جانب سے موجودہ بارڈر مینجمنٹ کے اقدامات میں رکاوٹ بننا چاہتے ہیں ۔انہی وجوہات کی وجہ سےکئی مرتبہ کشیدگی باقائدہ فوجی کاروائی تک پہنچ چکی ہے۔ اس تمام معاملے کی پشت پر ہمارا ازلی دشمن بھارت ہی کھڑا نظر آتا ہے۔جسے خفیہ طور پر برطانیہ اور امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔